Hijab in the light of quran and sunnah

This is our new research for the muslims may this help them in problems they are facing and may ALLAH help us all

This is among one of the most discussed issue now a days tht women should cover her face aur she can keep it open i have tried to make this thing clear by the help of quran kareem nd Ahadees of Rasool Ameen May ALLAH help us in understanding this easily if u have any problem u can contact me

 

Let us First See what quran says about this
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَبَنٰتِكَ وَنِسَاۗءِ الْمُؤْمِنِيْنَ يُدْنِيْنَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيْبِهِنَّ ۭ ذٰلِكَ اَدْنٰٓى اَنْ يُّعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۭ وَكَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا 59؀
O prophet, tell your wives and your daughters and the women of the believers that they should draw down their shawls over them. That will make it more likely that they are recognized, hence not teased. And Allah is Most-Forgiving, Very-Merciful.

Surah ahzab Ayat number 59

This ayat is specially for covering the face as it can be seen by the word use Jalabeeb which meanz Shawl nd the word adna meanz to draw down

Let us see the tafseeer of thz ayat frm mustanid tafaseer as tafseer ibn e jareer , tafseer kabeer nd tafseer bezawi tafseer ahsan ul biyan nd tafseer usmani as well

Hazrat ibn e Abbas said in the tafseer of thz ayat said
“ALLAh have ordered the muslim women that when ever they go out for any need they should put their shawls over them selves and cover their faces”
Tafseer Ibn e jareer

“imam Muhammad bin sareen asked obeda bin sufiyan bin haris al hizrimi that how should thz rule been followed he took a shawl and cover all his face nd left only one eye un cover”
Tafseer ibn e jareer
Imam Razi in tafseer kabeer
“ALLAh rabulizat gave thz order to women as in tht time londiyan and other women also did not take hijab and badkar people uses to tease tyhem so ALLAh ordered the women to take shawl nd cover his face tht one might knw tht she is a baparda women and not among the bad ones”

Tafseer ahsan ul bayan
اس کے برعکس بے پردہ عورت اوباشوں کی نگاہوں کا مرک۵۹۔۱جلابیب، جلباب کی جمع ہے جو ایسی بڑی چادر کو کہتے ہیں جس سے پورا بدن ڈھک جائے اپنے اوپر چادر لٹکانے سے مراد اپنے چہرے پر اس طرح گھونگٹ نکالنا ہے کہ جس سے چہرے کا بیشتر حصہ بھی چھپ جائے اور نظریں جھکا کر چلنے سے اسے راستہ بھی نظر آتا جائے پاک وہند یا دیگر اسلامی ممالک میں برقعے کی جو مختلف صورتیں ہیں عہد رسالت میں یہ برقعے عام نہیں تھے پھر بعد میں معاشرت میں وہ سادگی نہیں رہی جو عہد رسالت اور صحابہ وتابعین کے دور میں تھی عورتیں نہایت سادہ لباس پہنتی تھیں بناؤ سنگھار اور زیب وزینت کے اظہار کا کوئی جذبہ ان کے اندر نہیں ہوتا تھا اس لیے ایک بڑی چادر سے بھی پردے کے تقاضے پورے ہوجاتے تھے لیکن بعد میں یہ سادگی نہیں رہی اس کی جگہ تجمل اور زینت نے لے لی اور عورتوں کے اندر زرق برق لباس اور زیورات کی نمائش عام ہوگئی جس کی وجہ سے چادر سے پردہ کرنا مشکل ہوگیا اور اس کی جگہ مختلف انداز کے برقعے عام ہوگئے گو اس سے بعض دفعہ عورت کو بالخصوص سخت گرمی میں کچھ دقت بھی محسوس ہوتی ہے لیکن یہ ذرا سی تکلیف شریعت کے تقاضوں کے مقابلے میں کوئی اہمیت نہں رکھتی تاہم جو عورت برقعے کے بجائے پردے کے لیے بڑی چادر استعمال کرتی ہے اور پورے بدن کو ڈھانکتی اور چہرے پر صحیح معنوں میں گھونگٹ نکالتی ہے وہ یقینا پردے کے حکم کو بجالاتی ہے کیونکہ برقعہ ایسی لازمی شئی نہیں ہے جسے شریعت نے پردے کے لیے لازمی قرار دیا ہو لیکن آج کل عورتوں نے چادر کو بے پردگی اختیار کر نے کا ذریعہ بنالیا ہے پہلے وہ برقعے کی جگہ چادر اوڑھنا شروع کرتی ہیں پھر چادر بھی غائب ہوجاتی ہے صرف دوپٹہ رہ جاتا ہے اور بعض عورتوں کے لیے اس کا لینا بھی گراں ہوتا ہے۔ صورت حال کو دیکھتے ہوئے کہنا پڑتا ہے کہ اب برقع کا استعمال ہی صحیح ہے کیوں کہ جب سے برقعے کی جگہ چادر نے لے لی ہے بے پردگی عام ہوگئ ہے بلکہ عورتیں نیم برہنگی پر بھی فخر کرنے لگی ہیں انا للہ وانا الیہ راجعون بہرحال اس آیت میں نبی کی بیویوں، بیٹیوں اور عام مومن عورتوں کو گھر سے باہر نکلتے وقت پردے کاحکم دیا گیا جس سے واضح ہے کہ پردے کا حکم علماء کا ایجاد کردہ نہیں ہے جیسا کہ آج کل بعض لوگ باور کراتے ہیں یا اس کو قرار واقعی اہمیت نہیں دیتے بلکہ یہ اللہ کا حکم ہے جو قرآن کریم کی نص سے ثابت ہے۔ اس سے اعراض، انکار اور بے پردگی پر اصرار کفر تک پہنچا سکتا ہے دوسری بات اس سے یہ معلوم ہوئی کہ نبی کی ایک بیٹی نہیں تھی جیسا کہ رافضیوں کا عقیدہ ہے بلکہ آپ کی ایک سے زائد بیٹیاں تھیں جیسا کہ نص قرآنی سے واضح ہے اور یہ چار تھیں جیسا کہ تاریخ و سیرت اور احادیث کی کتابوں سے ثابت ہے۔
٥٩۔۲ یہ پردے کی حکمت اور اس کے فائدے کا بیان ہے کہ اس سے ایک شریف زادی اور باحیا عورت اور بے شرم اور بدکار عورت کے درمیان پہنچان ہوگی۔ پردے سے معلوم ہوگا کہ یہ خاندانی عورت ہے جس سے چھیڑ خانی کی جرات کسی کو نہیں ہوگی۔

Tafseer usmani
ف١ یعنی بدن ڈھانپنے کے ساتھ چادر کا کچھ حصہ سر سے نیچے چہرہ پر بھی لٹکا لیویں۔ روایات میں ہے کہ اس آیت کے نازل ہونے پر مسلمان عورتیں بدن اور چہرہ چھپا کر اس طرح نکلتی تھیں کہ صرف ایک آنکھ دیکھنے کے لیے کھلی رہتی تھی۔ اس سے ثابت ہوا کہ فتنہ کے وقت آزاد عورت کو چہرہ بھی چھپا لینا چاہیے۔ لونڈی باندیوں کو ضرورت شدیدہ کی وجہ سے اس کا مکلف نہیں کیا۔ کیونکہ کاروبار میں حرج عظیم واقع ہوتا ہے۔
ف ٢ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں”یعنی پہچانی پڑیں کہ لونڈی نہیں بی بی ہے صاحب ناموس، بدذات نہیں نیک بخت ہے، تو بدنیت لوگ اس سے نہ الجھیں۔ گھونگھٹ اس کا نشان رکھ دیا۔ یہ حکم بہتری کا ہے۔ آگے فرما دیا اللہ ہے بخشنے والا مہربان۔” یعنی باوجود اہتمام کے کچھ تقصیر رہ جائے تو اللہ کی مہربانی سے بخشش کی توقع ہے۔ (تکمیل) یہ تو آزاد عورتوں کے متعلق انتظام تھا کہ انہیں پہچان کر ہر ایک کا حوصلہ چھیڑنے کا نہ ہو، اور جھوٹے عذر کرنے کا موقع نہ رہے۔ آگے عام چھیڑ چھاڑ کی نسبت دھمکی دی ہے خواہ بی بی سے ہو یا لونڈی سے

 

Same is the tafseer in tafseer bezawi nd all the other authentic and big tafaseer

 

let us knw move to the Hadees section
The reason for revelation of thz parda hokum
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بیان کیا کہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن خطاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کرتے تھے کہ اپنی بیویوں کو پردہ میں رکھئے حضرت عائشہ کا بیان ہے کہ آپ نے ایسا نہیں کیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں رفع حاجت کے لئے رات ہی کو نکلتی تھیں سودہ بنت زمعہ باہر نکل کر گئیں اور وہ ایک لانبی عورت تھیں عمر بن خطاب اس وقت مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے دیکھا لیا اور کہا کہ اے سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں نے تمہیں پہچان لیا صرف اس شوق میں ایسا کہا کہ پردے کی آیت نازل ہو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بیان ہے کہ اللہ بزرگ و برتر نے پردہ کی آیت نازل فرمائی۔
Sahi bukhari hadees number 5830

LET US SEE WHAT AHADEES SAYS ABOUT COVERING OF FACE

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ حَدَّثَنَا نَافِعٌ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ قَامَ رَجُلٌ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَاذَا تَأْمُرُنَا أَنْ نَلْبَسَ مِنْ الثِّيَابِ فِي الْإِحْرَامِ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَلْبَسُوا الْقَمِيصَ وَلَا السَّرَاوِيلَاتِ وَلَا الْعَمَائِمَ وَلَا الْبَرَانِسَ إِلَّا أَنْ يَکُونَ أَحَدٌ لَيْسَتْ لَهُ نَعْلَانِ فَلْيَلْبَسْ الْخُفَّيْنِ وَلْيَقْطَعْ أَسْفَلَ مِنْ الْکَعْبَيْنِ وَلَا تَلْبَسُوا شَيْئًا مَسَّهُ زَعْفَرَانٌ وَلَا الْوَرْسُ وَلَا تَنْتَقِبْ الْمَرْأَةُ الْمُحْرِمَةُ وَلَا تَلْبَسْ الْقُفَّازَيْنِ تَابَعَهُ مُوسَی بْنُ عُقْبَةَ وَإِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عُقْبَةَ وَجُوَيْرِيَةُ وَابْنُ إِسْحَاقَ فِي النِّقَابِ وَالْقُفَّازَيْنِ وَقَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ وَلَا وَرْسٌ وَکَانَ يَقُولُ لَا تَتَنَقَّبْ الْمُحْرِمَةُ وَلَا تَلْبَسْ الْقُفَّازَيْنِ وَقَالَ مَالِکٌ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ لَا تَتَنَقَّبْ الْمُحْرِمَةُ وَتَابَعَهُ لَيْثُ بْنُ أَبِي سُلَيْمٍ
عبداللہ بن یذید، لیث، نافع، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص کھڑا ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ حالت احرام میں کون سے کپڑے پہننے کا حکم دیتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قمیص، پائجامہ، عمامہ اور ٹوپی نہ پہنے۔ مگر یہ کہ کوئی ایسا آدمی جس کے پاس جو تیاں نہ ہو تو وہ موزے پہن سکتا ہے اور ٹخنے کے نیچے سے کاٹ دے اور نہ کوئی ایسا کپڑا پہنو جس میں زعفران یا ورس لگی ہو اور احرام والی عورت منہ پر نقاب نہ ڈالے اور نہ دستانے پہنے، موسی بن عقبہ، اسمعیل بن ابراہیم بن عقبہ، جویریہ اور ابن اسحاق نے نقاب اور دستانوں کے متعلق اس کے متابع حدیث روایت کی ہے اور عبیداللہ کی روایت میں ولاورس کا لفظ ہے اور وہ کہتے تھے کہ احرام والی عورت نقاب نہ ڈالے اور لیث بن ابی سلیم نے اس کے متابع حدیث روایت کی ہے۔

Sahi bukhari kitab ul umra hadees number 1719
U can also thz hadees in the below mention ref as well
Abu dawood kitab ul hajj hadees number 1811
Abu dawood kitab ul hajj hadees number 1812
Abu dawood kitab ul hajj hadees number 1813
It is mentioned in the above hadees tht women will not wear naqab and hand gloves when he is performing hajj thz hadees shows tht the women use to wear all thz things thts y thz special order was given

Lets see the next hadees

 

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي زِيَادٍ عَنْ مُجَاهِدٍ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ کَانَ الرُّکْبَانُ يَمُرُّونَ بِنَا وَنَحْنُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُحْرِمَاتٌ فَإِذَا حَاذَوْا بِنَا سَدَلَتْ إِحْدَانَا جِلْبَابَهَا مِنْ رَأْسِهَا عَلَی وَجْهِهَا فَإِذَا جَاوَزُونَا کَشَفْنَاهُ
احمد بن حنبل، ہشیم، یزید بن ابی زیاد، مجاہد، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (دوران حج و عمرہ) سوار ہمارے سامنے سے گذرتے اور ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ احرام باندھے ہوئے ہوتے پس جب سوار ہمارے سامنے آجاتے تو ہم اپنے منہ پر نقاب ڈال لیتے اور جب وہ گذر جاتے تو ہم پھر منہ کھول لیتے۔
Abu dawood kitab ul hajj hadees number 1819
THz hadees show the way Umulmomineen use to cover his face from the non mohrams

Let us see the next hadees now

حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَلَّامٍ حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ فَرَجِ بْنِ فَضَالَةَ عَنْ عَبْدِ الْخَبِيرِ بْنِ ثَابِتِ بْنِ قَيْسِ بْنِ شَمَّاسٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ قَالَ جَائَتْ امْرَأَةٌ إِلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَالُ لَهَا أُمُّ خَلَّادٍ وَهِيَ مُنْتَقِبَةٌ تَسْأَلُ عَنْ ابْنِهَا وَهُوَ مَقْتُولٌ فَقَالَ لَهَا بَعْضُ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جِئْتِ تَسْأَلِينَ عَنْ ابْنِکِ وَأَنْتِ مُنْتَقِبَةٌ فَقَالَتْ إِنْ أُرْزَأَ ابْنِي فَلَنْ أُرْزَأَ حَيَائِي فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ابْنُکِ لَهُ أَجْرُ شَهِيدَيْنِ قَالَتْ وَلِمَ ذَاکَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ لِأَنَّهُ قَتَلَهُ أَهْلُ الْکِتَابِ
عبدالرحمن بن سلام، حجاج بن معمر، فرج بن فضالہ، عبدالخبیر بن ثابت بن قیس، حضرت قیس بن شماس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں ایک عورت حاضر ہوئی اس کا نام خلاد تھا اور اس کے چہرے پر نقاب پڑی ہوئی تھی۔ یہ عورت اپنے بیٹے کے بارے میں دریافت کر رہی تھی جو جنگ میں شہید ہو گیا تھا۔ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سے کسی نے اس سے کہا کہ تو اپنے بیٹے کو ڈھونڈ رہی ہے اور اس حال میں سر اور چہرہ ڈھکا ہوا ہے (یعنی پوری طرح اپنے حواس میں ہے اور احکام شریعت کی پابندی برقرار ہے) وہ بولی اگر میرا بیٹا بھی جاتا رہا تب بھی اپنی حیاء نہیں جانے دوں گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس عورت سے فرمایا تیرے بیٹوں کو دو شہیدوں کے برابر ثواب ملے گا۔ اس نے پوچھا اے اللہ کے رسول وہ کیوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کیونکہ اس کو اہل کتاب نے قتل کیا ہے۔

Abu dawood kitab ul hajj hadees number 2466

 

Thz hadees shows tht the son of lady was a shaheed of holy war nd she was still covering his face nd had taken naqab

 

Let us see the next hadees now

حَدَّثَنَا أَبُو بَدْرٍ عَبَّادُ بْنُ الْوَلِيدِ حَدَّثَنَا حَبَّانُ بْنُ هِلَالٍ حَدَّثَنَا مُبَارَکُ بْنُ فَضَالَةَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ عَنْ أُمِّ مُحَمَّدٍ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ لَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ وَهُوَ عَرُوسٌ بِصَفِيَّةَ بِنْتِ حُيَيٍّ جِئْنَ نِسَائُ الْأَنْصَارِ فَأَخْبَرْنَ عَنْهَا قَالَتْ فَتَنَکَّرْتُ وَتَنَقَّبْتُ فَذَهَبْتُ فَنَظَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَی عَيْنِي فَعَرَفَنِي قَالَتْ فَالْتَفَتَ فَأَسْرَعْتُ الْمَشْيَ فَأَدْرَکَنِي فَاحْتَضَنَنِي فَقَالَ کَيْفَ رَأَيْتِ قَالَتْ قُلْتُ أَرْسِلْ يَهُودِيَّةٌ وَسْطَ يَهُودِيَّاتٍ
ابوبدر عباد بن ولید، حبان بن ہلال، مبارک بن فضالہ ، علی بن زید ، ام محمد، حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (خیبر سے واپسی پر) مدینہ تشریف لائے اور آپ صفیہ بنت حیی کے دولہا بن چکے تھے تو انصاری عورتیں آئیں اور صفیہ کے متعلق بتانے لگیں۔ فرماتی ہیں کہ میں نے اپنی ہیئت بدلی نقاب ڈالا اور چلی گئی (صفیہ کو دیکھنے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میری آنکھیں دیکھ کر پہچان لیا۔ فرماتی ہیں کہ میں نے منہ موڑا اور تیزی سے چلی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے پکڑ لیا اور گود میں لے لیا۔ پھر فرمایا تم نے کیسی دیکھی ہے؟ میں نے کہا بس چھوڑ دیجئے ایک یہودن ہے یہودنوں کے درمیان۔
Ibn e maja kitab un nikah hadees number 1892
Here u can see the amal of hazrat Ayesha again tht she used to cover her face with a naqab